یوں ہی نہیں ہم بولتے جاتے یہ اپنی مجبوری ہے
جونہی کچھ کہہ چکتے ہیں لگتا ہے بات ادھوری ہے
سب اپنی افواہ بنے ہیں اصل میں کیا تھے بھول گئے
جینے کی جو صورت ہے سو یہ بھی آج ضروری ہے
دنیا میری زندگی کے دن کم کرتی جاتی ہے کیوں
خون پسینہ ایک کیا ہے یہ میری مزدوری ہے
اپنے بعد ہی دنیا میں ٹھہراؤ جو آئے تو آئے
جب تک ہم زندہ ہیں تب تک ہر اک دور عبوری ہے
ڈھونڈ رہے ہیں کس کو لوگ شکاری جیسی نظروں سے
صف در صف موجود ہوں میں تو ہر اک صف تو پوری ہے
سب اک دوسرے کو نظروں سے بس یہ دلاسہ دیتے ہیں
ہیں تو ہم سب پاس ہی بس اندر کی یہ اک دوری ہے
اتنی ساری آوازوں میں شاید سننے والے کو
بس اتنا ہی یاد رہے گا میری بات ضروری ہے
کوئی بہانا مل جائے تو ہاتھ نہیں ہم آنے کے
دیر یہ ہے چل دینے میں تیاری تو پوری ہے
تلخؔ ہمارے ہوش کے عالم کا ہے رنگ سخن کچھ اور
جس پر وجد میں ہے اک دنیا وہ تو غیر شعوری ہے
غزل
یوں ہی نہیں ہم بولتے جاتے یہ اپنی مجبوری ہے
منموہن تلخ