بہت روئی ہوئی لگتی ہیں آنکھیں
مری خاطر ذرا کاجل لگا لو
لیاقت علی عاصم
بہت ضخیم کتابوں سے چن کے لایا ہوں
انہیں پڑھو ورق انتخاب ہیں مرے دوست
لیاقت علی عاصم
بتان شہر تمہارے لرزتے ہاتھوں میں
کوئی تو سنگ ہو ایسا کہ میرا سر لے جائے
لیاقت علی عاصم
اس سفر سے کوئی لوٹا نہیں کس سے پوچھیں
کیسی منزل ہے جہان گزراں سے آگے
لیاقت علی عاصم
کبھی یہ غلط کبھی وہ غلط کبھی سب غلط
یہ خیال پختہ جو خام تھے مجھے کھا گئے
لیاقت علی عاصم
کہاں تک ایک ہی تمثیل دیکھوں
بس اب پردہ گرا دو تھک گیا ہوں
لیاقت علی عاصم
منانا ہی ضروری ہے تو پھر تم
ہمیں سب سے خفا ہو کر منا لو
لیاقت علی عاصم
میری راتیں بھی سیہ دن بھی اندھیرے میرے
رنگ یہ میرے مقدر میں کہاں سے آیا
لیاقت علی عاصم
شام کے سائے میں جیسے پیڑ کا سایا ملے
میرے مٹنے کا تماشا دیکھنے کی چیز تھی
لیاقت علی عاصم