ملے تو کاش مرا ہاتھ تھام کر لے جائے
وہ اپنے گھر نہ سہی مجھ کو میرے گھر لے جائے
بتان شہر تمہارے لرزتے ہاتھوں میں
کوئی تو سنگ ہو ایسا کہ میرا سر لے جائے
دیا کروں گا یوں ہی تیرے نام کی دستک
مرا نصیب مجھے لاکھ در بدر لے جائے
وہ آدمی ہو کہ خوشبو بہت ہی رسوا ہے
ہوائے شہر جسے اپنے دوش پر لے جائے
مرے قریب سے گزرے تو اہل دل بولے
اٹھا کے کون پرندہ لہو میں تر لے جائے
پلٹ کے آئے تو شاید نہ کچھ دکھائی دے
وہ جا رہا ہے تو عاصمؔ مری نظر لے جائے
غزل
ملے تو کاش مرا ہاتھ تھام کر لے جائے
لیاقت علی عاصم