آئیے بیچ کی دیوار گرا دیتے ہیں
کب سے اک مسئلہ بے کار میں الجھا ہوا ہے
خورشید طلب
آج دریا میں عجب شور عجب ہلچل ہے
کس کی کشتی نے قدم آب رواں پر رکھا
خورشید طلب
عزیزو آؤ اب اک الوداعی جشن کر لیں
کہ اس کے بعد اک لمبا سفر افسوس کا ہے
خورشید طلب
بہت نقصان ہوتا ہے
زیادہ ہوشیاری میں
خورشید طلب
ہمیں ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہتا ہے
پڑے ہیں ڈھیر سارے کام اور مہلت ذرا سی ہے
خورشید طلب
ہر ایک عہد نے لکھا ہے اپنا نامۂ شوق
کسی نے خوں سے لکھا ہے کسی نے آنسو سے
خورشید طلب
ہوا سے کہہ دو کہ کچھ دیر کو ٹھہر جائے
خجل ہماری عبارت ہوا سے ہوتی ہے
خورشید طلب
ہوا تو ہے ہی مخالف مجھے ڈراتا ہے کیا
ہوا سے پوچھ کے کوئی دیئے جلاتا ہے کیا
خورشید طلب
کبھی دماغ کو خاطر میں ہم نے لایا نہیں
ہم اہل دل تھے ہمیشہ رہے خسارے میں
خورشید طلب