بدن ہے سبز اور شاداب لیکن روح پیاسی ہے
مرے اندر ہزاروں بانجھ پیڑوں کی اداسی ہے
کسی کے دل سے اب جذبات کا رشتہ نہیں قائم
ہنسی بھی مصلحت آمیز آنسو بھی سیاسی ہے
پئے اظہار کچھ ایسا نہیں ہے جو انوکھا ہو
ہر اک جذبہ پرانا ہے ہر اک احساس باسی ہے
ہمیں ہر وقت یہ احساس دامن گیر رہتا ہے
پڑے ہیں ڈھیر سارے کام اور مہلت ذرا سی ہے
سمٹ کر رہ گئی ہے وسعت دنیا ہتھیلی بھر
ہمارا مسئلہ اب بھی ہماری خود شناسی ہے
لگا ہوں میں طلبؔ اس سچ کو جھٹلانے میں برسوں سے
میں کل آقا تھا جس کا اب مرے بیٹے کی داسی ہے
غزل
بدن ہے سبز اور شاداب لیکن روح پیاسی ہے
خورشید طلب