سرمۂ چشم بنایا دل و جاں پر رکھا
زہر تھا پھر بھی اسے میں نے زباں پر رکھا
اس خسارے میں عجب طرح کی سرشاری تھی
دل کو مامور سدا کار زیاں پر رکھا
کوئی روشن تو کرے آ کے خد و خال مرے
حرف ایقان ہوں اوراق گماں پر رکھا
آج دریا میں عجب شور عجب ہلچل ہے
کس کی کشتی نے قدم آب رواں پر رکھا
کیا صبا کون صبا باد بہاری کیسی
ایک اک گل ہو جہاں نوک سناں پر رکھا
اک قلندر کی طرح وقت رہا محو خرام
اس نے کب دھیان طلبؔ شور سگاں پر رکھا

غزل
سرمۂ چشم بنایا دل و جاں پر رکھا
خورشید طلب