تماشہ رہ گزر در رہ گزر افسوس کا ہے
بھلے ہی خوش ہیں سب لیکن سفر افسوس کا ہے
بہشتی باغ کی سب تتلیاں ہیں پر بریدہ
شکستہ رنگ تا حد نظر افسوس کا ہے
ابھی اترا رہے ہیں ساکنان قصر شاہی
ابھی آنکھوں سے ان کے محو گھر افسوس کا ہے
حویلی اب کہاں جو قہقہوں سے گونجتی تھی
جہاں تک دیکھتا ہوں میں کھنڈر افسوس کا ہے
کہاں ممکن ترے عشرت کدے میں شام کاٹیں
ابھی تو سامنا ہر گام پر افسوس کا ہے
عزیزو آؤ اب اک الوداعی جشن کر لیں
کہ اس کے بعد اک لمبا سفر افسوس کا ہے

غزل
تماشہ رہ گزر در رہ گزر افسوس کا ہے
خورشید طلب