EN हिंदी
رواں ہے نور کا اک سیل ہر بن مو سے | شیح شیری
rawan hai nur ka ek sail har-bun-e-mu se

غزل

رواں ہے نور کا اک سیل ہر بن مو سے

خورشید طلب

;

رواں ہے نور کا اک سیل ہر بن مو سے
مجھے چھوا ہے کسی نے ہزار پہلو سے

بدل کے رکھ دیا جنگل کو شہر میں اس نے
تمام دشت پریشاں ہے ایک آہو سے

خدا کے واسطے اب روک بھی یہ رقص جنوں
صدا کچھ اور ہی آنے لگی ہے گھنگھرو سے

انہیں میں وقت کے کاندھے پہ ڈال دیتا ہوں
جو بوجھ اٹھتے نہیں میرے دست و بازو سے

ہر ایک عہد نے لکھا ہے اپنا نامۂ شوق
کسی نے خوں سے لکھا ہے کسی نے آنسو سے

مرا سوال غزل کے مخالفین سے ہے
مجھے نکل کے دکھا دیں غزل کے جادو سے