جس کو دیکھو وہی پیکار میں الجھا ہوا ہے
ہر گریبان کسی تار میں الجھا ہوا ہے
دشت بے چین ہے وحشت کی پذیرائی کو
دل وحشی در و دیوار میں الجھا ہوا ہے
جنگ دستک لیے آ پہنچی ہے دروازے تک
شاہزادہ لب و رخسار میں الجھا ہوا ہے
اک حکایت لب اظہار پہ ہے سوختہ جاں
ایک قصہ ابھی کردار میں الجھا ہوا ہے
سر کی قیمت مجھے معلوم نہیں ہے لیکن
آسماں تک مری دستار میں الجھا ہوا ہے
آئیے بیچ کی دیوار گرا دیتے ہیں
کب سے اک مسئلہ بے کار میں الجھا ہوا ہے
غزل
جس کو دیکھو وہی پیکار میں الجھا ہوا ہے
خورشید طلب