دیکھ کر بھی نہ دیکھنا اس کا
یہ ادا تو بتوں میں ہوتی ہے
خورشید ربانی
ہوائے تازہ کا جھونکا ادھر سے کیا گزرا
گرے پڑے ہوئے پتوں میں جان آ گئی ہے
خورشید ربانی
خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر
مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے
خورشید ربانی
خوابوں کی میں نے ایک عمارت بنائی اور
یادوں کا اس میں ایک دریچہ بنا لیا
خورشید ربانی
کس کی خاطر اجاڑ رستے پر
پھول لے کر شجر کھڑا ہوا تھا
خورشید ربانی
کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ
دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا
خورشید ربانی
کسی نے میری طرف دیکھنا نہ تھا خورشیدؔ
تو بے سبب ہی سنوارا گیا تھا کیوں مجھ کو
خورشید ربانی
کوئی نہیں جو مٹائے مری سیہ بختی
فلک پہ کتنے ستارے ہیں جگمگائے ہوئے
خورشید ربانی
ماتمی کپڑے پہن لیے تھے میری زمیں نے
اور فلک نے چاند ستارہ پہن لیا تھا
خورشید ربانی