کوئی دل میں سما گیا ہوا تھا
زندگی سے میں آشنا ہوا تھا
اس کا بند قبا کھلا ہوا تھا
یا کوئی عکس آئنہ ہوا تھا
بات کرنے کو لفظ تھے ہی نہیں
آنکھوں آنکھوں میں فیصلہ ہوا تھا
کوئی آیا تھا میرے گھر میں اور
سارا آنگن کھلا کھلا ہوا تھا
کس کی خاطر اجاڑ رستے پر
پھول لے کر شجر کھڑا ہوا تھا
چاندنی جھیل میں اترتے دیکھ
پیڑ سکتے میں آ گیا ہوا تھا
غزل
کوئی دل میں سما گیا ہوا تھا
خورشید ربانی