سورج نے جب شب کا لبادہ پہن لیا تھا
ہر اک شے نے اپنا سایہ پہن لیا تھا
اپنا عریاں جسم چھپانے کی کوشش میں
تیز ہوا نے پتا پتا پہن لیا تھا
ماتمی کپڑے پہن لیے تھے میری زمیں نے
اور فلک نے چاند ستارہ پہن لیا تھا
سارا شہر شریک ہوا تھا اس کے دکھ میں
جس دن اس نے غم کا لمحہ پہن لیا تھا
مایوسی کے عالم میں بھی اے خورشیدؔ
ہم نے اک امید کا رستہ پہن لیا تھا
غزل
سورج نے جب شب کا لبادہ پہن لیا تھا
خورشید ربانی