صلیب درد پہ وارا گیا تھا کیوں مجھ کو
غم فراق سے مارا گیا تھا کیوں مجھ کو
کسی خیال کسی خواب کے جزیرے پر
تمام عمر گزارا گیا تھا کیوں مجھ کو
پلٹ رہا تھا در خواب سے جو خالی ہاتھ
تو بار بار پکارا گیا تھا کیوں مجھ کو
کف گماں سے جو گرنا تھا عمر بھر کے لیے
تو ایک پل کو سراہا گیا تھا کیوں مجھ کو
اگر نہیں تھا یہاں کوئی منتظر میرا
تو پھر فلک سے اتارا گیا تھا کیوں مجھ کو
کسی نے میری طرف دیکھنا نہ تھا خورشیدؔ
تو بے سبب ہی سنوارا گیا تھا کیوں مجھ کو
غزل
صلیب درد پہ وارا گیا تھا کیوں مجھ کو
خورشید ربانی