سائے کو دھوپ دھوپ کو سایہ بنا لیا
اک لمحۂ وصال نے کیا کیا بنا لیا
اک شہر نا شناس میں جانے کی دیر تھی
بیگانگی نے مجھ کو تماشا بنا لیا
آوارگان شوق کا رستے میں تھا ہجوم
میں نے مگر ہجوم میں رستا بنا لیا
خوابوں کی میں نے ایک عمارت بنائی اور
یادوں کا اس میں ایک دریچہ بنا لیا
اتنی سی بات ہے کہ اسے مل نہیں سکا
اس نے بڑھا کے بات کو جھگڑا بنا لیا
غزل
سائے کو دھوپ دھوپ کو سایہ بنا لیا
خورشید ربانی