برہمی حسن کو کچھ اور جلا دیتی ہے
وہ جمالی تیرا چہرہ وہ جلالی آنکھیں
خار دہلوی
چشم گریاں کی آبیاری سے
دل کے داغوں پہ پھر بہار آئی
خار دہلوی
چپکے سے سہہ رہا ہوں ستم تیرے بے وفا
میری خطا تو جب ہو کہ چوں کر رہا ہوں میں
خار دہلوی
خارؔ الفت کی بات جانے دو
زندگی کس کو سازگار آئی
خار دہلوی
میں نے مانا کہ عدو بھی ترا شیدائی ہے
فرق ہوتا ہے فدا ہونے میں مر جانے میں
خار دہلوی
محبت زلف کا آسیب جادو ہے نگاہوں کا
محبت فتنۂ محشر بلائے ناگہانی ہے
خار دہلوی
سچ تو یہ ہے کہ دعا نے نہ دوا نے رکھا
ہم کو زندہ ترے دامن کی ہوا نے رکھا
خار دہلوی
اٹھے نہ بیٹھ کر کبھی کوئے حبیب سے
اس در پے کیا گئے کہ اسی در کے ہو گئے
خار دہلوی
یہ نگری حسن والوں کی عجب نگری ہے اے ہم دم
کہ اس نگری میں آہوں کی بھی تاثیریں بدلتی ہیں
خار دہلوی