ہیجان میں تلاش سکوں کر رہا ہوں میں
یوں اپنے غم کو اور فزوں کر رہا ہوں میں
وہ سن رہے ہیں اور تبسم ہے زیر لب
ان سے بیان حال زبوں کر رہا ہوں میں
اب اس سے بڑھ کے اور ہو وحشت کا کیا ثبوت
تالیف نسخہ ہائے جنوں کر رہا ہوں میں
اک دشمن وفا سے بڑھائی ہے رسم و راہ
خود اپنی آرزوؤں کا خوں کر رہا ہوں میں
اب وادئ جنوں میں قدم رکھ چکا ہے عشق
تشہیر داغ ہائے دروں کر رہا ہوں میں
مسحور ہو رہے ہیں وہ سن کر مرا کلام
دم ان پہ جیسے کوئی فسوں کر رہا ہوں میں
معبود ہے وہ بس مرا مطلوب ہی نہیں
سجدہ اس آستانے پہ یوں کر رہا ہوں میں
شاید کہ آب تیغ ہی آب حیات ہو
حد ادب سے خود کو بروں کر رہا ہوں میں
سینہ بھی میرا ہاتھ بھی میرے تمہیں غرض
زد کوب اپنے سینہ کو کیوں کر رہا ہوں میں
چپکے سے سہہ رہا ہوں ستم تیرے بے وفا
میری خطا تو جب ہو کہ چوں کر رہا ہوں میں
زعم خودی میں جس پہ نہ جانے کا عہد تھا
اس در پہ خارؔ سر کو نگوں کر رہا ہوں میں
غزل
ہیجان میں تلاش سکوں کر رہا ہوں میں
خار دہلوی