EN हिंदी
دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے | شیح شیری
duniya ke hain na din ke dilbar ke ho gae

غزل

دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے

خار دہلوی

;

دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے
ہم دل سے کلمہ گو کسی کافر کے ہو گئے

اٹھے نہ بیٹھ کر کبھی کوئے حبیب سے
اس در پے کیا گئے کہ اسی در کے ہو گئے

اے چشم یار مان گئے تیرے سحر کو
دل دے کے معتقد ترے منتر کے ہو گئے

ہم عرض حال کر نہ سکے اف رے رعب حسن
جاتے ہی ان کے سامنے پتھر کے ہو گئے

اے خارؔ دل جگر پہ ہی قابو نہیں رہا
ہم سے خلاف غیر تو کیا گھر کے ہو گئے