دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے
ہم دل سے کلمہ گو کسی کافر کے ہو گئے
اٹھے نہ بیٹھ کر کبھی کوئے حبیب سے
اس در پے کیا گئے کہ اسی در کے ہو گئے
اے چشم یار مان گئے تیرے سحر کو
دل دے کے معتقد ترے منتر کے ہو گئے
ہم عرض حال کر نہ سکے اف رے رعب حسن
جاتے ہی ان کے سامنے پتھر کے ہو گئے
اے خارؔ دل جگر پہ ہی قابو نہیں رہا
ہم سے خلاف غیر تو کیا گھر کے ہو گئے
غزل
دنیا کے ہیں نہ دین کے دلبر کے ہو گئے
خار دہلوی