EN हिंदी
اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں | شیح شیری
is qadar uski mudaraat hai virane mein

غزل

اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں

خار دہلوی

;

اس قدر اس کی مدارات ہے ویرانے میں
کوئی تو بات ہے آخر ترے دیوانے میں

فیض ساقی سے جو محروم ہیں مے خانے میں
جانے کیا ہم سے خطا ہو گئی ان جانے میں

وقت کی بات ہے اب اس کے ترستے ہیں لب
''جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں''

میں نے مانا کہ عدو بھی ترا شیدائی ہے
فرق ہوتا ہے فدا ہونے میں مر جانے میں

دل ربائی کے جسے ہم نے سکھائے انداز
جان محفل ہے وہی غیر کے کاشانے میں

ہر ادا دل کے لیے دشنہ و خنجر ہے مگر
اور ہی بات ہے ظالم ترے شرمانے میں

نہ تسلی نہ تشفی نہ کوئی پیار کی بات
تجھ کو کیا ملتا ہے کافر ہمیں تڑپانے میں

ساقیا مے جو نہیں باقی تو تلچھٹ ہی سہی
ڈال دے نام خدا تھوڑی سی پیمانے میں

میری جانب سے ترے دل میں غبار آ ہی گیا
آخرش آ ہی گیا غیر کے بھڑکانے میں

عشق کی آگ سوا کس میں ہے یہ کون کہے
شمع کے سینۂ سوزاں میں کہ پروانے میں

خارؔ ہے جلوۂ اصنام سے دل خلد بریں
یا پری زادوں کا مجمع ہے پری خانے میں