ہم کو محروم کرم اس کی جفا نے رکھا
زیست سے تنگ کسی تنگ قبا نے رکھا
سچ تو یہ ہے کہ دعا نے نہ دوا نے رکھا
ہم کو زندہ ترے دامن کی ہوا نے رکھا
حسن والے تو بہت اور ہیں دنیا میں مگر
ان کو یکتائے زماں ان کی ادا نے رکھا
حسرت دید نہ شرمندۂ تکمیل ہوئی
تیرے جلووں نے کہاں ہوش ٹھکانے رکھا
ظلم چپ ہو کے سہیں ایسے تو مجبور نہ تھے
ہم کو لاچار مگر تیری رضا نے رکھا
راہ الفت میں بہت آئے مقام لغزش
شکر صد شکر بھرم میرا وفا نے رکھا
بس ہمیں تک رہیں محدود جفائیں ان کی
لطف اتنا تو روا اہل جفا نے رکھا
راستہ روک لیا فرط نزاکت نے کبھی
پاس آئے تو انہیں دور حیا نے رکھا
کبھی دامان و گریباں سے الجھتے رہے ہاتھ
درد دل نے کبھی مصروف دعا نے رکھا
یاد آتے رہے بے طرح معطر گیسو
آج بے چین بہت باد صبا نے رکھا
خارؔ دشمن نے تو الزام تراشے کیا کیا
سرخ رو مجھ کو مگر میری وفا نے رکھا
غزل
ہم کو محروم کرم اس کی جفا نے رکھا
خار دہلوی