EN हिंदी
وہی ہے نفس مضموں صرف تدبیریں بدلتی ہیں | شیح شیری
wahi hai nafs-e-mazmun sirf tadbiren badalti hain

غزل

وہی ہے نفس مضموں صرف تدبیریں بدلتی ہیں

خار دہلوی

;

وہی ہے نفس مضموں صرف تدبیریں بدلتی ہیں
حضور دوست کیا کیا اپنی تقریریں بدلتی ہیں

یہ نگری حسن والوں کی عجب نگری ہے اے ہم دم
کہ اس نگری میں آہوں کی بھی تاثیریں بدلتی ہیں

نہ اترا اے دل ناداں کسی کے عہد و پیماں پر
کہ قول و فعل کیا لوگوں کی تحریریں بدلتی ہیں

خدائی کا اگر کرتے ہیں دعویٰ بت نہیں بے جا
نگاہ لطف سے دیکھیں تو تقدیریں بدلتی ہیں

کوئی سفاک جب دیدوں میں دیدے ڈال دیتا ہے
تو دل سے دل نہیں الفت کی جاگیریں بدلتی ہیں

کسی کافر کے یاد آتے ہیں انداز و ادا جس دم
نظر کے سامنے کتنی ہی تصویریں بدلتی ہیں

کسی پر برق گرتی ہے کوئی چڑھتا ہے سولی پر
بقدر ذوق مجرم خارؔ تعزیریں بدلتی ہیں