دھوپ سائے کی طرح پھیل گئی
ان درختوں کی دعا لینے سے
کاشف حسین غائر
ہمارے دل کی طرح شہر کے یہ رستے بھی
ہزار بھید چھپائے ہوئے سے لگتے ہیں
کاشف حسین غائر
ہماری زندگی پر موت بھی حیران ہے غائرؔ
نہ جانے کس نے یہ تاریخ پیدائش نکالی ہے
کاشف حسین غائر
اک دن دکھ کی شدت کم پڑ جاتی ہے
کیسی بھی ہو وحشت کم پڑ جاتی ہے
کاشف حسین غائر
ان ستاروں میں کہیں تم بھی ہو
ان نظاروں میں کہیں میں بھی ہوں
کاشف حسین غائر
کل رات جگاتی رہی اک خواب کی دوری
اور نیند بچھاتی رہی بستر مرے آگے
کاشف حسین غائر
کچھ ایسی بھی دل کی باتیں ہوتی ہیں
جن باتوں کو خلوت کم پڑ جاتی ہے
کاشف حسین غائر
کچھ دیر بیٹھ جائیے دیوار کے قریب
کیا کہہ رہا ہے سایۂ دیوار جانیے
کاشف حسین غائر
کیا چاہتی ہے ہم سے ہماری یہ زندگی
کیا قرض ہے جو ہم سے ادا ہو نہیں رہا
کاشف حسین غائر