EN हिंदी
احوال پوچھیے مرا آزار جانیے | شیح شیری
ahwal pochhiye mera aazar jaaniye

غزل

احوال پوچھیے مرا آزار جانیے

کاشف حسین غائر

;

احوال پوچھیے مرا آزار جانیے
زنجیر دیکھ کر نہ گرفتار جانیے

افسوس جا چکا ہے گھڑی دیکھنے کا وقت
اب دھوپ سے ہی وقت کی رفتار جانیے

ہنسئے جناب دیر تک اب اپنے آپ پر
کس نے کہا تھا خود کو سمجھ دار جانیے

کچھ دیر بیٹھ جائیے دیوار کے قریب
کیا کہہ رہا ہے سایۂ دیوار جانیے

آساں نہیں ہے جاننا اس شہر کا مزاج
سو بار دیکھیے اسے سو بار جانیے

کیا ربط خاص آپ کو کار جہاں سے ہے
اچھا تو آپ بھی مجھے بے کار جانیے

کاشفؔ حسین خوب ہی ہوتے ہیں اہل عشق
اس پار بھی کھڑے ہوں تو اس پار جانیے