مدت سے کوئی شور بپا ہو نہیں رہا
اور ہاتھ ہے کہ دل سے جدا ہو نہیں رہا
اک صبح تھی جو شام میں تبدیل ہو گئی
اک رنگ ہے جو رنگ حنا ہو نہیں رہا
ہم بھی وہی دیا بھی وہی رات بھی وہی
کیا بات ہے جو رقص ہوا ہو نہیں رہا
ہم بھی کسی خیال کے سناہٹوں میں گم
تم سے بھی پاس عہد وفا ہو نہیں رہا
کیا چاہتی ہے ہم سے ہماری یہ زندگی
کیا قرض ہے جو ہم سے ادا ہو نہیں رہا
غزل
مدت سے کوئی شور بپا ہو نہیں رہا
کاشف حسین غائر