آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی
لفظوں نے کئی دن سے کوئی بات نہیں کی
جاوید ناصر
بہت اداس تھا اس دن مگر ہوا کیا تھا
ہر ایک بات بھلی تھی تو پھر برا کیا تھا
جاوید ناصر
دشت کی دھوپ ہے جنگل کی گھنی راتیں ہیں
اس کہانی میں بہر حال کئی باتیں ہیں
جاوید ناصر
دوستو تم سے گزارش ہے یہاں مت آؤ
اس بڑے شہر میں تنہائی بھی مر جاتی ہے
جاوید ناصر
گھڑی جو بیت گئی اس کا بھی شمار کیا
نصاب جاں میں تری خامشی بھی شامل کی
جاوید ناصر
جنبش مہر ہے ہر لفظ تری باتوں کا
رنگ اڑتا نہیں آنکھوں سے ملاقاتوں کا
جاوید ناصر
خدا آباد رکھے زندگی کو
ہماری خامشی کو سہہ گئی ہے
جاوید ناصر
کھلتی ہیں آسماں میں سمندر کی کھڑکیاں
بے دین راستوں پہ کہیں اپنا گھر تو ہے
جاوید ناصر
کن کن کی آتمائیں پہاڑوں میں قید ہیں
آواز دو تو بجتے ہیں پتھر کے دف یہاں
جاوید ناصر