EN हिंदी
آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی | شیح شیری
aahaT bhi agar ki to tah-e-zat nahin ki

غزل

آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی

جاوید ناصر

;

آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی
لفظوں نے کئی دن سے کوئی بات نہیں کی

اظہار نہ آنکھیں نہ تحکم نہ قرینہ
لہجے نے بھی عرصے سے ملاقات نہیں کی

اصرار تھا ماتھے پہ نہ آنکھوں میں نمی تھی
تم نے تو رعایت بھی مرے ساتھ نہیں کی

ترتیب دیا اس کے لیے شور انا کو
ہم نے بھی کئی دن سے بہت رات نہیں کی

دو چار ہواؤں کے قدم دھوپ کے چھینٹے
جاویدؔ نے شعروں میں نئی بات نہیں کی