آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی
لفظوں نے کئی دن سے کوئی بات نہیں کی
اظہار نہ آنکھیں نہ تحکم نہ قرینہ
لہجے نے بھی عرصے سے ملاقات نہیں کی
اصرار تھا ماتھے پہ نہ آنکھوں میں نمی تھی
تم نے تو رعایت بھی مرے ساتھ نہیں کی
ترتیب دیا اس کے لیے شور انا کو
ہم نے بھی کئی دن سے بہت رات نہیں کی
دو چار ہواؤں کے قدم دھوپ کے چھینٹے
جاویدؔ نے شعروں میں نئی بات نہیں کی
غزل
آہٹ بھی اگر کی تو تہہ ذات نہیں کی
جاوید ناصر