یہ بے گھری یہ سمندر یہ روشنی دل کی
اکیلے بیٹھ کے سوچا کیے ہیں محفل کی
گھڑی جو بیت گئی اس کا بھی شمار کیا
نصاب جاں میں تری خامشی بھی شامل کی
میں حق پرست ہوں لیکن مجھے بھی حیرت ہے
شکست، وہ بھی اسی دور میں ہو باطل کی؟
ہمارا دور مکمل نہیں ہوا لیکن
تلاش راہ نہ کوئی طلب ہے منزل کی
سجھائی دے نہ سکا راستہ خیالوں کا
دکھائی دے نہ سکی روشنی مقابل کی
غزل
یہ بے گھری یہ سمندر یہ روشنی دل کی
جاوید ناصر