EN हिंदी
یہ بے گھری یہ سمندر یہ روشنی دل کی | شیح شیری
ye be-ghari ye samundar ye raushni dil ki

غزل

یہ بے گھری یہ سمندر یہ روشنی دل کی

جاوید ناصر

;

یہ بے گھری یہ سمندر یہ روشنی دل کی
اکیلے بیٹھ کے سوچا کیے ہیں محفل کی

گھڑی جو بیت گئی اس کا بھی شمار کیا
نصاب جاں میں تری خامشی بھی شامل کی

میں حق پرست ہوں لیکن مجھے بھی حیرت ہے
شکست، وہ بھی اسی دور میں ہو باطل کی؟

ہمارا دور مکمل نہیں ہوا لیکن
تلاش راہ نہ کوئی طلب ہے منزل کی

سجھائی دے نہ سکا راستہ خیالوں کا
دکھائی دے نہ سکی روشنی مقابل کی