گھر کی تسلیوں میں جواز ہنر تو ہے
ان جنگلوں میں رات کا جھوٹا سفر تو ہے
جس کے لیے ہواؤں سے منہ پونچھتی ہے نیند
اس جرأت حساب میں خوابوں کا ڈر تو ہے
کھلتی ہیں آسماں میں سمندر کی کھڑکیاں
بے دین راستوں پہ کہیں اپنا گھر تو ہے
روشن کوئی چراغ مزار ہوا پہ ہو
پلکوں پہ آج رات غبار سحر تو ہے

غزل
گھر کی تسلیوں میں جواز ہنر تو ہے
جاوید ناصر