بہت اداس تھا اس دن مگر ہوا کیا تھا
ہر ایک بات بھلی تھی تو پھر برا کیا تھا
ہر ایک لفظ پہ لازم نہیں کہ غور کروں
ذرا سی بات تھی ویسے بھی سوچنا کیا تھا
مجھے تو یاد نہیں ہے وہاں کی سب باتیں
کسی کسی پہ نظر کی تھی دیکھنا کیا تھا
گلی بھی ایک تھی اپنے مکاں بھی تھے نزدیک
اسی خیال سے آیا تھا پوچھنا کیا تھا
میں جس کی زد میں رہا آخری تسلی تک
خدائے برتر و اعلیٰ وہ سلسلہ کیا تھا
غزل
بہت اداس تھا اس دن مگر ہوا کیا تھا
جاوید ناصر