EN हिंदी
حیرت سے دیکھتی ہے دریچوں کی صف یہاں | شیح شیری
hairat se dekhti hai darichon ki saf yahan

غزل

حیرت سے دیکھتی ہے دریچوں کی صف یہاں

جاوید ناصر

;

حیرت سے دیکھتی ہے دریچوں کی صف یہاں
بنتے ہیں جان بوجھ کے سائے ہدف یہاں

کن کن کی آتمائیں پہاڑوں میں قید ہیں
آواز دو تو بجتے ہیں پتھر کے دف یہاں

چھنتی ہے جنگلوں میں درختوں سے روشنی
دھبے ہیں کیسے دھوپ کے چاروں طرف یہاں

اٹھ اٹھ کے آسماں کو بتاتی ہے دھول کیوں
مٹی میں دفن ہو گئے کتنے صدف یہاں

غصہ تھا جانے کون سی صدیوں کا ان کے پاس
آنکھوں سے اب بھی بہتا ہے خوابوں کا کف یہاں