حیرت سے دیکھتی ہے دریچوں کی صف یہاں
بنتے ہیں جان بوجھ کے سائے ہدف یہاں
کن کن کی آتمائیں پہاڑوں میں قید ہیں
آواز دو تو بجتے ہیں پتھر کے دف یہاں
چھنتی ہے جنگلوں میں درختوں سے روشنی
دھبے ہیں کیسے دھوپ کے چاروں طرف یہاں
اٹھ اٹھ کے آسماں کو بتاتی ہے دھول کیوں
مٹی میں دفن ہو گئے کتنے صدف یہاں
غصہ تھا جانے کون سی صدیوں کا ان کے پاس
آنکھوں سے اب بھی بہتا ہے خوابوں کا کف یہاں
غزل
حیرت سے دیکھتی ہے دریچوں کی صف یہاں
جاوید ناصر