مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے
سدا خاموش ہو کے رہ گئی ہے
ابھی تک ذکر ہے لہروں میں اس کا
وہ موج خیر تھی جو بہہ گئی ہے
نچھاور کر رہے تھے ہم غموں کو
مگر دیوار گریہ ڈھہ گئی ہے
خدا آباد رکھے زندگی کو
ہماری خامشی کو سہہ گئی ہے
غزل
مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے
جاوید ناصر