EN हिंदी
مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے | شیح شیری
magar jo dil mein tha wo kah gai hai

غزل

مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے

جاوید ناصر

;

مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے
سدا خاموش ہو کے رہ گئی ہے

ابھی تک ذکر ہے لہروں میں اس کا
وہ موج خیر تھی جو بہہ گئی ہے

نچھاور کر رہے تھے ہم غموں کو
مگر دیوار گریہ ڈھہ گئی ہے

خدا آباد رکھے زندگی کو
ہماری خامشی کو سہہ گئی ہے