جنبش مہر ہے ہر لفظ تری باتوں کا
رنگ اڑتا نہیں آنکھوں سے ملاقاتوں کا
دیکھنے آئے ہیں جنگل میں تماشہ سب لوگ
ان اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی برساتوں کا
ایک اک کر کے ٹپکتی ہیں خوشی کی بوندیں
کس لیے پھوٹ کے روتا ہے دھواں راتوں کا
دیکھیے سارے چراغوں کی لویں ڈوب گئیں
وقت اب آ ہی گیا سر پہ مناجاتوں کا
دھول ہر وقت اڑاتے ہیں افق کے آگے
جرم ثابت ہے ہواؤں کے کھلے ہاتھوں کا
غزل
جنبش مہر ہے ہر لفظ تری باتوں کا
جاوید ناصر