افسوس معبدوں میں خدا بیچتے ہیں لوگ
اب معنیٔ سزا و جزا کچھ نہیں رہا
اقبال کیفی
اٹے ہوئے ہیں فقیروں کے پیرہن کیفیؔ
جہاں نے بھیک میں مٹی بکھیر کر دی ہے
اقبال کیفی
دیکھا ہے محبت کو عبادت کی نظر سے
نفرت کے عوامل ہمیں معیوب رہے ہیں
اقبال کیفی
غزل کے رنگ میں ملبوس ہو کر
رباب درد سے آہنگ نکلا
اقبال کیفی
گہر سمجھا تھا لیکن سنگ نکلا
کسی کا ظرف کتنا تنگ نکلا
اقبال کیفی
خزاں کا دور بھی آتا ہے ایک دن کیفیؔ
سدا بہار کہاں تک درخت رہتے ہیں
اقبال کیفی
میں ایسے حسن ظن کو خدا مانتا نہیں
آہوں کے احتجاج سے جو ماورا رہے
اقبال کیفی
محبتوں کو بھی اس نے خطا قرار دیا
مگر یہ جرم ہمیں بار بار کرنا ہے
اقبال کیفی
پھولوں کا تبسم بھی وہ پہلا سا نہیں ہے
گلشن میں بھی چلتی ہے ہوا اور طرح کی
اقبال کیفی