موج بلا میں روز کوئی ڈوبتا رہے
ساحل ہر ایک بار مگر دیکھتا رہے
یاروں کی کشتیاں رہیں ساحل سے بے نیاز
طوفاں سے بے نیاز اگر ناخدا رہے
خیرات میں کبھی نہیں مانگیں محبتیں
ہر چند میرے دوست مجھے آزما رہے
جن کو نہیں تھی دولت احساس تک نصیب
تکریم بے نظر میں وہی دیوتا رہے
میں ایسے حسن ظن کو خدا مانتا نہیں
آہوں کے احتجاج سے جو ماورا رہے
مانا کہ ہر طرح ہے تغیر سے بے نیاز
لیکن وہ حال غم سے تو کچھ آشنا رہے
کیفیؔ ضمیر باختہ لوگوں سے کب تلک
خیرات احترام کوئی مانگتا رہے
غزل
موج بلا میں روز کوئی ڈوبتا رہے
اقبال کیفی