گہر سمجھا تھا لیکن سنگ نکلا
کسی کا ظرف کتنا تنگ نکلا
جسے نسبت رہی قوس قزح سے
ہواؤں کی طرح بے رنگ نکلا
غزل کے رنگ میں ملبوس ہو کر
رباب درد سے آہنگ نکلا
کوئی بھی ڈھنگ راس آیا نہ کیفیؔ
زمانہ کس قدر بے ڈھنگ نکلا
غزل
گہر سمجھا تھا لیکن سنگ نکلا
اقبال کیفی