EN हिंदी
ساحل کے طلب گار بھی کیا خوب رہے ہیں | شیح شیری
sahil ke talabgar bhi kya KHub rahe hain

غزل

ساحل کے طلب گار بھی کیا خوب رہے ہیں

اقبال کیفی

;

ساحل کے طلب گار بھی کیا خوب رہے ہیں
کہتے تھے نہ ڈوبیں گے مگر ڈوب رہے ہیں

تو لاکھ رہے اہل محبت سے گریزاں
ہم لوگ ترے نام سے منسوب رہے ہیں

دیکھا ہے محبت کو عبادت کی نظر سے
نفرت کے عوامل ہمیں معیوب رہے ہیں

لمحوں کے لئے ایک نظر ان کو تو دیکھو
صدیوں کی صلیبوں پہ جو مصلوب رہے ہیں