کیف حیات تیرے سوا کچھ نہیں رہا
تیری قسم ہے تجھ سے جدا کچھ نہیں رہا
واللہ سب رتیں ہیں پریشاں ترے بغیر
واللہ موسموں کا مزا کچھ نہیں رہا
طوفان ساحلوں کو اڑاتے چلے گئے
کیسے کہوں کہ کچھ بھی رہا کچھ نہیں رہا
افسوس معبدوں میں خدا بیچتے ہیں لوگ
اب معنیٔ سزا و جزا کچھ نہیں رہا
ہم میکشوں پہ کفر کے فتوے دیے گئے
اہل خدا کو خوف خدا کچھ نہیں رہا
ہم تو وفا پرست رہیں گے تمام عمر
مانا کہ ان کو پاس وفا کچھ نہیں رہا
کیفیؔ میں کس طرح سے وہ منظر بیاں کروں
میں نے جو رو کے ان سے کہا کچھ نہیں رہا
![kaif-e-hayat tere siwa kuchh nahin raha](/images/pic02.jpg)
غزل
کیف حیات تیرے سوا کچھ نہیں رہا
اقبال کیفی