سنا ہے اس نے خزاں کو بہار کرنا ہے
یہ جھوٹ تو ہے مگر اعتبار کرنا ہے
یہ اور بات ملاقات ہو نہ ہو لیکن
قیامتوں کا ہمیں انتظار کرنا ہے
محبتوں کو بھی اس نے خطا قرار دیا
مگر یہ جرم ہمیں بار بار کرنا ہے
ہر ایک بار یہ سوچا کہ اب کی بار اس نے
نہ جانے کون سا ڈھنگ اختیار کرنا ہے
تم اپنا چاند خوشی سے تمام شب دیکھو
ہمارا کام ستارے شمار کرنا ہے
غزل
سنا ہے اس نے خزاں کو بہار کرنا ہے
اقبال کیفی