سائل کے لبوں پر ہے دعا اور طرح کی
افلاک سے آتی ہے صدا اور طرح کی
ہے زیست اگر جرم تو اے منصف عالم
جرم اور طرح کا ہے سزا اور طرح کی
اس دل میں ہے مفہوم کرم اور طرح کا
اس دل میں ہے تفہیم وفا اور طرح کی
پھولوں کا تبسم بھی وہ پہلا سا نہیں ہے
گلشن میں بھی چلتی ہے ہوا اور طرح کی
دیتے ہیں فقیروں کو سزا آج بھی کیفیؔ
لوگ اور طرح سے تو خدا اور طرح کی
غزل
سائل کے لبوں پر ہے دعا اور طرح کی
اقبال کیفی