EN हिंदी
محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے | شیح شیری
mohabbaton ne baDi her-pher kar di hai

غزل

محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے

اقبال کیفی

;

محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے
وفا غرور کے قدموں میں ڈھیر کر دی ہے

کٹی ہے رات بڑے اضطراب میں اپنی
ترے خیال میں ہم نے سویر کر دی ہے

ہم اہل عشق تو برسوں کے مر گئے ہوتے
عروس مرگ نے آنے میں دیر کر دی ہے

اٹے ہوئے ہیں فقیروں کے پیرہن کیفیؔ
جہاں نے بھیک میں مٹی بکھیر کر دی ہے