محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے
وفا غرور کے قدموں میں ڈھیر کر دی ہے
کٹی ہے رات بڑے اضطراب میں اپنی
ترے خیال میں ہم نے سویر کر دی ہے
ہم اہل عشق تو برسوں کے مر گئے ہوتے
عروس مرگ نے آنے میں دیر کر دی ہے
اٹے ہوئے ہیں فقیروں کے پیرہن کیفیؔ
جہاں نے بھیک میں مٹی بکھیر کر دی ہے
غزل
محبتوں نے بڑی ہیر پھیر کر دی ہے
اقبال کیفی