EN हिंदी
ابن انشا شیاری | شیح شیری

ابن انشا شیر

30 شیر

آن کے اس بیمار کو دیکھے تجھ کو بھی توفیق ہوئی
لب پر اس کے نام تھا تیرا جب بھی درد شدید ہوا

ابن انشا




اہل وفا سے ترک تعلق کر لو پر اک بات کہیں
کل تم ان کو یاد کرو گے کل تم انہیں پکارو گے

ابن انشا




اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے

ابن انشا




اپنی زباں سے کچھ نہ کہیں گے چپ ہی رہیں گے عاشق لوگ
تم سے تو اتنا ہو سکتا ہے پوچھو حال بیچاروں کا

ابن انشا




بے تیرے کیا وحشت ہم کو تجھ بن کیسا صبر و سکوں
تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے

ابن انشا




بیکل بیکل رہتے ہو پر محفل کے آداب کے ساتھ
آنکھ چرا کر دیکھ بھی لیتے بھولے بھی بن جاتے ہو

ابن انشا




دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی
وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا

ابن انشا




دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو

ابن انشا




ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

ابن انشا