EN हिंदी
ابن انشا شیاری | شیح شیری

ابن انشا شیر

30 شیر

ہم کسی در پہ نہ ٹھٹکے نہ کہیں دستک دی
سیکڑوں در تھے مری جاں ترے در سے پہلے

ابن انشا




ہم بھول سکے ہیں نہ تجھے بھول سکیں گے
تو یاد رہے گا ہمیں ہاں یاد رہے گا

ابن انشا




گرم آنسو اور ٹھنڈی آہیں من میں کیا کیا موسم ہیں
اس بغیا کے بھید نہ کھولو سیر کرو خاموش رہو

ابن انشا




ایک سے ایک جنوں کا مارا اس بستی میں رہتا ہے
ایک ہمیں ہشیار تھے یارو ایک ہمیں بد نام ہوئے

ابن انشا




ایک دن دیکھنے کو آ جاتے
یہ ہوس عمر بھر نہیں ہوتی

ابن انشا




دل ہجر کے درد سے بوجھل ہے اب آن ملو تو بہتر ہو
اس بات سے ہم کو کیا مطلب یہ کیسے ہو یہ کیوں کر ہو

ابن انشا




دیدہ و دل نے درد کی اپنے بات بھی کی تو کس سے کی
وہ تو درد کا بانی ٹھہرا وہ کیا درد بٹائے گا

ابن انشا




بیکل بیکل رہتے ہو پر محفل کے آداب کے ساتھ
آنکھ چرا کر دیکھ بھی لیتے بھولے بھی بن جاتے ہو

ابن انشا




بے تیرے کیا وحشت ہم کو تجھ بن کیسا صبر و سکوں
تو ہی اپنا شہر ہے جانی تو ہی اپنا صحرا ہے

ابن انشا