دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابل دید ہوا
ایک ستارہ بیٹھے بیٹھے تابش میں خورشید ہوا
آج تو جانی رستہ تکتے شام کا چاند پدید ہوا
تو نے تو انکار کیا تھا دل کب نا امید ہوا
آن کے اس بیمار کو دیکھے تجھ کو بھی توفیق ہوئی
لب پر اس کے نام تھا تیرا جب بھی درد شدید ہوا
ہاں اس نے جھلکی دکھلائی ایک ہی پل کو دریچے میں
جانو اک بجلی لہرائی عالم ایک شہید ہوا
تو نے ہم سے کلام بھی چھوڑا عرض وفا کے سنتے ہی
پہلے کون قریب تھا ہم سے اب تو اور بعید ہوا
دنیا کے سب کارج چھوڑے نام پہ تیرے انشاؔ نے
اور اسے کیا تھوڑے غم تھے تیرا عشق مزید ہوا
غزل
دیکھ ہماری دید کے کارن کیسا قابل دید ہوا
ابن انشا