اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
دشت پڑتا ہے میاں عشق میں گھر سے پہلے
چل دیے اٹھ کے سوئے شہر وفا کوئے حبیب
پوچھ لینا تھا کسی خاک بسر سے پہلے
عشق پہلے بھی کیا ہجر کا غم بھی دیکھا
اتنے تڑپے ہیں نہ گھبرائے نہ ترسے پہلے
جی بہلتا ہی نہیں اب کوئی ساعت کوئی پل
رات ڈھلتی ہی نہیں چار پہر سے پہلے
ہم کسی در پہ نہ ٹھٹکے نہ کہیں دستک دی
سیکڑوں در تھے مری جاں ترے در سے پہلے
چاند سے آنکھ ملی جی کا اجالا جاگا
ہم کو سو بار ہوئی صبح سحر سے پہلے
غزل
اپنے ہم راہ جو آتے ہو ادھر سے پہلے
ابن انشا