EN हिंदी
سنتے ہیں پھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو | شیح شیری
sunte hain phir chhup chhup un ke ghar mein aate jate ho

غزل

سنتے ہیں پھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو

ابن انشا

;

سنتے ہیں پھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو
انشاؔ صاحب ناحق جی کو وحشت میں الجھاتے ہو

دل کی بات چھپانی مشکل لیکن خوب چھپاتے ہو
بن میں دانا شہر کے اندر دیوانے کہلاتے ہو

بے کل بے کل رہتے ہو پر محفل کے آداب کے ساتھ
آنکھ چرا کر دیکھ بھی لیتے بھولے بھی بن جاتے ہو

پیت میں ایسے لاکھ جتن ہیں لیکن اک دن سب ناکام
آپ جہاں میں رسوا ہو گے وعظ ہمیں فرماتے ہو

ہم سے نام جنوں کا قائم ہم سے دشت کی آبادی
ہم سے درد کا شکوہ کرتے ہم کو زخم دکھاتے ہو