EN हिंदी
حنیف کیفی شیاری | شیح شیری

حنیف کیفی شیر

9 شیر

انا انا کے مقابل ہے راہ کیسے کھلے
تعلقات میں حائل ہے بات کی دیوار

حنیف کیفی




اپنے کاندھوں پہ لیے پھرتا ہوں اپنی ہی صلیب
خود مری موت کا ماتم ہے مرے جینے میں

حنیف کیفی




اپنی جانب نہیں اب لوٹنا ممکن میرا
ڈھل گیا ہوں میں سراپا ترے آئینے میں

حنیف کیفی




کوئی بھی رت ہو ملی ہے دکھوں کی فصل ہمیں
جو موسم آیا ہے اس کے عتاب دیکھے ہیں

حنیف کیفی




ملے وہ لمحہ جسے اپنا کہہ سکیں کیفیؔ
گزر رہے ہیں اسی جستجو میں ماہ و سال

حنیف کیفی




مدتیں گزریں ملاقات ہوئی تھی تم سے
پھر کوئی اور نہ آیا نظر آئینے میں

حنیف کیفی




سب نظر آتے ہیں چہرے گرد گرد
کیا ہوئے بے آب آئینے تمام

حنیف کیفی




شب دراز کا ہے قصہ مختصر کیفیؔ
ہوئی سحر کے اجالوں میں گم چراغ کی لو

حنیف کیفی




تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں
مجھے نہ آواز دے زمانہ میں اپنی آواز سن رہا ہوں

حنیف کیفی