بکھر کے ریت ہوئے ہیں وہ خواب دیکھے ہیں
مری نگاہ نے کتنے سراب دیکھے ہیں
سحر کہیں تو کہیں کیسے اپنی صبحوں کو
کہ رات اگلتے ہوئے آفتاب دیکھے ہیں
کوئی بھی رت ہو ملی ہے دکھوں کی فصل ہمیں
جو موسم آیا ہے اس کے عتاب دیکھے ہیں
میں بد گمان نہیں ہوں مگر کتابوں میں
تمہارے نام کئی انتساب دیکھے ہیں
کبھی کی رک گئی بارش گزر چکا سیلاب
کئی گھر اب بھی مگر زیر آب دیکھے ہیں
کوئی ہماری غزل بھی ملاحظہ کرنا
تمہارے ہم نے کئی انتخاب دیکھے ہیں
پناہ ڈھونڈتے گزری ہے زندگی کیفیؔ
جھلستی دھوپ میں سائے کے خواب دیکھے ہیں
غزل
بکھر کے ریت ہوئے ہیں وہ خواب دیکھے ہیں
حنیف کیفی