ہے راہ رو کے ہوئے حادثات کی دیوار
گرائے کون یہ گرد حیات کی دیوار
سحر ہمارے مقدر سے دور ہوتی گئی
بلند ہوتی گئی روز رات کی دیوار
مٹے جو یہ حد فاصل تو آپ تک پہنچیں
ہمارے بیچ میں حائل ہے ذات کی دیوار
انا انا کے مقابل ہے راہ کیسے کھلے
تعلقات میں حائل ہے بات کی دیوار
نہ جانے کون سے جھونکے میں گر پڑے کیفیؔ
شکستہ ہونے لگی ہے حیات کی دیوار
غزل
ہے راہ رو کے ہوئے حادثات کی دیوار
حنیف کیفی