تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں
مجھے نہ آواز دے زمانہ میں اپنی آواز سن رہا ہوں
تضاد ہستی کا فلسفہ ہوں عروج و پستی کا آئنا ہوں
اٹھا ہوا اک غرور سر ہوں مٹا ہوا ایک نقش پا ہوں
ہو کیا تعین مری حدوں کا شمار کیا میری وسعتوں کا
ہزاروں عالم بسے ہیں مجھ میں میں بے حد و بیکراں خلا ہوں
عذاب احساس و آگہی کے وہ دل شکن خواب پاش لمحے
ہزار آئینے ٹوٹتے ہیں میں جب بھی آئینہ دیکھتا ہوں
میں ناشنیدہ صدائے صحرا بنوں گا آواز وقت کیفیؔ
زبان عالم پہ آؤں گا کل میں آج اک حرف نا رسا ہوں
غزل
تمام عالم سے موڑ کر منہ میں اپنے اندر سما گیا ہوں
حنیف کیفی