بنا کے توڑتی ہے دائرے چراغ کی لو
بہا کے لے گئی مجھ کو کہاں شعور کی رو
بنا چکا ہوں ادھورے مجسمے کتنے
کہاں وہ نقش جو تکمیل فن کا ہو پرتو
وہ موڑ میرے سفر کا ہے نقطۂ آغاز
فریب خوردۂ منزل ہوئے جہاں رہرو
لرزتے ہیں مری محروم خواب آنکھوں میں
بکھر چکے ہیں جو خواب ان کے منتشر پرتو
بھٹک نہ جاؤں میں تشکیک کے اندھیروں میں
لرز رہی ہے مری شمع اعتقاد کی لو
شب دراز کا ہے قصہ مختصر کیفیؔ
ہوئی سحر کے اجالوں میں گم چراغ کی لو
غزل
بنا کے توڑتی ہے دائرے چراغ کی لو
حنیف کیفی