EN हिंदी
بنا کے توڑتی ہے دائرے چراغ کی لو | شیح شیری
bana ke toDti hai daere charagh ki lau

غزل

بنا کے توڑتی ہے دائرے چراغ کی لو

حنیف کیفی

;

بنا کے توڑتی ہے دائرے چراغ کی لو
بہا کے لے گئی مجھ کو کہاں شعور کی رو

بنا چکا ہوں ادھورے مجسمے کتنے
کہاں وہ نقش جو تکمیل فن کا ہو پرتو

وہ موڑ میرے سفر کا ہے نقطۂ آغاز
فریب خوردۂ منزل ہوئے جہاں رہرو

لرزتے ہیں مری محروم خواب آنکھوں میں
بکھر چکے ہیں جو خواب ان کے منتشر پرتو

بھٹک نہ جاؤں میں تشکیک کے اندھیروں میں
لرز رہی ہے مری شمع اعتقاد کی لو

شب دراز کا ہے قصہ مختصر کیفیؔ
ہوئی سحر کے اجالوں میں گم چراغ کی لو