ہر اک کمال کو دیکھا جو ہم نے رو بہ زوال
سسک کے رہ گئی سینے میں آرزوئے کمال
ہم اپنی ڈوبتی قدروں کے ساتھ ڈوب گئے
ملے گی اب تو کتابوں میں بس ہماری مثال
ہوئے انا کے دکھاوے سے لوگ سر افراز
انا نے سر کو اٹھا کر کیا ہمیں پامال
ذرا سی عمر میں کس کس کا حل تلاش کریں
کھڑے ہیں راستہ روکے ہوئے ہزار سوال
مرے خلوص کا یاروں نے آسرا لے کر
کیا ہے خوب مری دوستی کا استحصال
بجھا بجھا سا یہی دل ہے اس شباب کی راکھ
رگوں میں دوڑ رہی تھی جو آتش سیال
ملے وہ لمحہ جسے اپنا کہہ سکیں کیفیؔ
گزر رہے ہیں اسی جستجو میں ماہ و سال
غزل
ہر اک کمال کو دیکھا جو ہم نے رو بہ زوال
حنیف کیفی